إرسال رابط إلى التطبيق

Professor Hafiz Ahmed Yar


4.4 ( 4144 ratings )
كتاب التعليم
المطور: Farhan Mahmood
حر

یہ ایپلیکیشن شعبۂ تحقیقِ اسلامی، مرکزی انجمن خدام القرآن کےزیرِ اہتمام تیار کی گئی ہے۔ علومِ قرآن کے ذیل میں اس ایپلیکیشن کو اردو زبان میں منفرداور جامع ترین ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
پروفیسر حافظ احمد یارؒ صاحب پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامیہ کے سربراہ تھے۔ آپ نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی خدمت کے لیے ہمہ تن وقف کردیا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی قائم کردہ قرآن اکیڈمی کے شعبۂ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ آپ نے رجوع الی القرآن کورسزکے نصاب میں شامل متعدد اہم مضامین کی تدریس کی جن میں عربی ادب، لغات و اعرابِ قرآن، مطالعہ قرآن حکیم کامنتخب نصاب اور ترجمہ و تفسیر شامل ہیں۔ مطالعہ قرآن کے ضمن میں مختلف تراجم کا موازنہ اور ان تراجم میں امتیازی خوبی کے حامل تراجم کی نہ صرف نشاندہی کرتے کی بلکہ ان تراجم میں مستعمل الفاظ کے قرینے کی پہچان کی صلاحیت بھی پیدا کرتے ۔مختلف تراجم کے تقابلی مطالعہ کے دوران جب کوئی مترجم موقع ومحل کی مناسبت سے موزوں الفاظ لے کر آتا تو اس کودادتحسین دیتے۔ کسی مدرس کے لئے یہ کام اسی وقت تک ممکن ہے جب وہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ پر عربی قواعد کے کثیر جہتی اصولوں کا انطباق کرے۔ اس عرق ریز ریاضت کی بدولت بلاغتِ قرآن کے بے شمار گوشےمبرہن ہوئے۔ یہ عمیق و دقیق اور نازک ذمہ داری آپ نے کچھ ایسی لگن، شگفتگی اورربط و ضبط کے ساتھ ادا کی کہ ان کے محاضرات علم قرآن کے متلاشیوں کے لیے ایک نہایت قیمتی اثاثہ ثابت ہوئے۔ دوران تدریس یوں محسوس ہوتا کہ قرآن کا ملکوتی آہنگ ان پر طاری ہے۔
شعبہ علومِ اسلامیہ میں حافظ احمد یار مرحوم کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ انہوں نے ایم۔اے علومِ اسلامیہ اور ایم۔اے عربی میں امتیازات حاصل کئے تھے انہیں یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ ہر دو پہلو سے بسطۃ فی العلم والجسم کی چلتی پھرتی مثال تھے۔حافظ احمد یار مرحوم ایک فاضل، محقق، محنتی ، شگفتہ مزاج، کھلے دل و دماغ سے کام لینے والے اور ہمیشہ ہشاش بشاش رہنے والے انسان تھے۔ جس مجلس میں گفتگو فرماتے تو وہ مجلس زعفران زار ہو جاتی۔
حافظ صاحبؒ بڑے باہمت اور پُرعزم تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے تدریسی و تحقیقی مشاغل جاری رکھے۔ عربی زبان کی تدریس میں انہوں نے نئے افق روشناس کرائے اور قرآن پر تحقیق کے نئے زاویے تلاش کیے۔ گہرے علمی رسوخ کے علاوہ وہ سادہ طبیعت اور صاف گو مزاج کے انسان تھے۔مرحوم کا انداز یہ تھا کہ وہ مسکراتے یا ہنستے اور پھر بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے۔ ان میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔حافظ صاحب مرحوم و مغفور بحیثیت انسان اور بحیثیت استاد ایک عظیم ہستی تھے۔ ان کی شخصیت میں بہت سے پہلو بڑے قابلِ رشک اور قابل تقلید ہیں۔ صاف گوئی آپ کی زندگی کا اصول تھا ۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنا نقطہ نظر دلیل کے ساتھ لگی لپٹی رکھے بغیر پیش فرمادیتے ۔
خود کو قرآن مجید کی خدمت اور عربی زبان و ادب کیلئے وقف کردیاتھا۔ طلبہ سے شفقت اور رفقاء اور احباب کے ساتھ نہایت اخلاص سے پیش آتے۔ آپ اسلامیات کے بنیادی ماخذ سے استفادہ کے بعد کلاسز پڑھاتے ۔ وسعتِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل پر تقابلی مطالعہ، مختلف نقطہ ہائے نگا ہ کا تجزیہ کر نے اور دلائل کی بنیاد پر راجح نقطہ نظر اختیار کر نے کی صلاحیت سے مالامال تھے۔ کسی مسئلے کے بارے میں علماء کی متفرق آراء میں سے ہر رائے کی تہہ تک پہنچ جانے کا ملکہ حاصل تھا
اسلامی موضوعات پر تحریر و تقریر میں آپ کے اسلوب میں عقلی ونقلی استدلال کاا متزاج پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ صرف انہی لوگوں کیلئے مفید نہیں ہوتی تھی جو اسلامی تعلیمات کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں، بلکہ وہ لوگ جو دوسروں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رکھتے ہیں یا ان میں الحادی یا انحرافی رجحانات پید ا ہو چکے ہوتے ہیں، ان کیلئے مدلل اور واضح راہنمائی موجود ہوتی ۔مستشرقین اور متجد دین کی فکری بنیادوں پر عقلی و نقلی اور واقعاتی شواہد کے ساتھ ان کامحاکمہ کر تے ۔ آپ کی تقریر و تحریرمیں کہیں بھی معذرت خواہانہ انداز نظر نہیں آتا۔ کتاب و سنت اور اسلاف کا موقف پورے استدلال کے ساتھ بیان کرتے۔ تعداد ازدواج ، یتیم پوتے کی وراثت ، حقوق نسواں، سود، شراب کی حرمت، اسلام کے نظام حدود و تعزیرات اور ان جیسے دیگر موضوعات کے بارے میں جدید متجد دین کے نقطہ نظر کا انہی کے اسلوب استدلال کے ساتھ محاکمہ کرتے۔آپ میں تواضع اور باوقار انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وسعت مطالعہ کے ساتھ ساتھ قوت حافظہ میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ طبیعت کا فطری میلان کسی بات کی حقیقت اور تہہ تک پہنچنا ہوتا تھا۔ ان ہی صلاحیتوں نے آپ میں تجزیہ و تقابل کی صلاحیت بھی پیدا کر دی تھی۔